سگریٹ نوشی اور کووڈ19 میں کیا تعلق ہے؟

سگریٹ نوشی اور کووڈ19 میں کیا تعلق ہے؟

 
کووڈ19 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جا رہی ہے۔ لاک ڈاون رائج ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مگر اس سب کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی باتیں بھی معلوم ہو رہی ہیں۔ اسی قسم کی ایک نئی دریافت کووڈ 19 اور سموکنگ کے مابین تعلق کی بھی ہے۔ شفا فار یو تمام لوگوں کو تاقید کرتا ہے کہ سموکنگ اول تو ترک کر دیں یا اس سے عارضی طور پر گریز اختیار کر لیں چونکہ یہ انسان کو اس بیماری کی پیچیدگیوں کیلئے مزید قابل قبول بنا دیتی ہے۔ اگر آپ کووڈ 19 کی علامات کا شکار ہیں تو شفا فار یو آن لائن ہر قسم کی مشاورت فراہم کر رہا ہے۔ 
 

تحقیق سے کیا ثابت ہوا ؟ 

ابتدائی طور پر چینی سائنس دانوں نے یہ بات سامنے لائی کہ سموکرز عام انسانوں کے مقابلے میں کووڈ 19 سے 14طگنا ذیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ بات حیران کن نہیں تھی کیونکہ وائرس ہمارے پھیپھڑوں پر اثر کرتا ہے اور سگریٹ نوشی انہیں کمزور اور خراب کرتی ہے۔ کووڈ 19 انفیکشن کا آغاز اے۔سی۔ای 2 ریسیپٹرز سے ہوتا ہے جو کہ سیلز کی سطح اور ریسپائیریٹری سسٹم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کورونا وائرس ان کو استعمال کر کے سیلز کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اسکا جینیاتی مادہ مزید تقسیم ہو کر نئے وائرس بنانے لگتا ہے جس سے اس کی مقدار اور ذیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ سگریٹ نوشی میں مشغول رہے ہیں ان میں یہ ریسیپٹرز کی تعداد نسبتا ذیادہ ہے لہذا ان افراد میں اس وائرس کو سپورٹ کرنے والی چیز ذیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک چینی رپورٹ کے مطابق سموکرز کووڈ 19 کی صورت میں ذیادہ شدید بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ 12 فیصد سموکرز کو بیماری کے بعد انٹینسو کیئر کی ضرورت پڑی جبکہ چار اعشاریہ سات فیصد نان سموکرز انٹینسو کیئر میں گئے۔ 
 
تاہم فرانس میں کی گئی ریسرش کے مطابق سموکنگ اس بیماری کیلئے فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا گیا کہ فرانس میں موجود 25 اعشاریہ 4 فیصد سموکرز میں سے کووڈ 19 کے کیسز صرف 8 اعشاریہ 5 فیصد سموکرز میں دیکھے گئے۔ایسے ہی نتائج چین میں بھی نظر آئے جہاں 1000 متاثرہ افراد میں سے 12 اعشاریہ 6 فیصد سموکرز تھے جبکہ پوری آبادی کے 28 فیصد افراد سموکرز ہیں۔ فرانسیسی نیوروبائیولوجسٹ جیان پیئر چینگویکس نے کہا کہ نکوٹین وائرس کو ریسیپٹرز تک پہنچنے اور بیماری کی صورت میں مدافعتی نظام کو اوور ری ایکٹ کرنے سے روکتا ہے۔ 
 
عالمی ہیلتھ کمیونٹی نے فرانس کے اس مسودے کو غیر سائینسی قرار دیا۔ اب تک ایک بات واضح ہے کہ سگریٹ نوشی سے 50 فیصد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دوسرا ڈبلیو ایچ او کے مطابق سموکنگ کافی خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ سگریٹس، سگریٹس کے ڈبے اور اس کو لگنے والے ہاتھ کچھ بھی وائرس سے آلودہ ہو سکتا ہے۔مزید یہ کہ اس کو پینے کیلئے منہ میں ڈالنا ایک اور خطرے سے بھرپور کام ہے۔ علاوہ ازیں سیگریٹ ہمارے پھیپھڑوں کی آکسیجن پکڑنے کی صلاحیت کو بھی کم کر دیتی ہے اور یہ تمام عوامل ملکر اس بیماری کی صورت میں سنگین صورتحال پیدا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ لہذا پرہیز علاج سے بہتر ہے کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے سگریٹ نوشی سے گریز ہی بہترین حکمت عملی ہے جیسا کہ 30000 افراد نے یو کے میں سگریٹ نوشی سے قطع تعلقی اختیار کر لی ہے۔

آوٹ لک:

اوپر دی گئی معلومات کے پیش نظر کورونا وائرس کی وبا کے دوران تمباکو نوشی سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے بلکہ اسے بالکل ترک کرنے کی تگ و دو بھی کرنی چاہئے جیسا کہ سگریٹ نوشی ہماری زندگی کو 11 سال تک کم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کورونا کی علامات کا شکار ہیں تو اپنے آپکو 14 دن کے لئے سب سے علیحدہ کر لیں اور ذیادہ سنگین علامات جیسا کہ سانس میں دشواری کے ظاہر ہونے پر اپنا ٹیسٹ لازمی کروائیں۔

Recommended Packages

Uzair Arshad

Uzair is a medical student of the penultimate year of MBBS in Allama Iqbal Medical College, Lahore. He is always interested in making things easy that are relatively difficult. Exploration is another catchy half and reading is a cup of tea.