کورونا وائرس میں میوٹیشنز کے امکانات اور ہمارا رد عمل

کورونا وائرس میں میوٹیشنز کے امکانات اور ہمارا رد عمل

Read in English

دشمنوں کے خدوخال سے واقفیت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے لہذا آج ہم کورونا وائرس کے جینوم کے بارے میں آگاہی حاصل کریں گے۔ وائرس بنیادی طور پر ایک چکنائی سے بنی ہوئی ممبرین ہے جس میں موجود جینیٹک میٹیریل اس کی بے شمار کاپیز بنانے کا اہل ہوتا ہے۔یہ انفارمیشن آر۔این۔اے کے چار حروف اے،سی،جی اور یو میں 300 مراکب کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ اس انفارمیشن کو مختلف سیلز جن میں وائرس داخل ہوتا ہے پڑھ کر وائرس کی مختلف پروٹینز بناتے ہیں۔ کورونا وائرس ایک انتہائی مہلک وائرس ہے جو انسان کو نہ صرف موت کے منہ میں دھکیلتا ہے بلکہ ہمارے ملک کے دیگر انتظامات کو بھی درہم برہم کر دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ پولیو ویکسین پر توجہ سے گمراہی بھی ہے جس کی مہم اپاہج ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کی میوٹیشنز کا ذکر آسمان سے بات کرتا دکھائی دیا تو شفا فار یو اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس اہم موضوع پر دلائل لیے حاضر ہے۔ 

کووڈ 19 کی میوٹیشنز: 

2019 کے آغاز میں یہ وائرس ووہان شہر کی ایک سی فوڈ مارکیٹ سے جنم لیا۔ یہ نمونیا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی صورت میں نمودار ہوا اور جلد ہی محققین اس وائرس کو، جسے سارز کوو2 کا نام دیا گیا، کی شکل میں جاننے لگے۔ اس کا علم اس وائرس کے سب سے پہلے مریض سے حاصل شدہ سٹرین کے جینوم کو سمجھنے سے شروع ہوا۔ اسے اسکا بنیادی جینوم سمجھ کر پوری دنیا میں زیر تحقیق لایا گیا کہ اس میں آنے والی تبدیلیوں کا پتہ لگایا جا سکے۔ اس جینوم کو ووہان۔ہو۔1 کا نام دیا گیا۔

اگر اس وائرس کا بنیادی نقشہ یہ تھا تو آخر اس میں تبدیلیاں کہاں سے آئی؟ آسان الفاظ میں میوٹیشنز کا مطلب آر۔این۔اے میں پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا نام ہے۔ جینیٹک میٹیریل کی لاکھوں کاپیز بناتے ہوئے سیلز سے ہونے والی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو میوٹیشنز کہا جاتا ہے۔ یہ غلطیاں محض ایک حرف جیسا کہ اے،یو یا جی کی بھی ہو سکتی ہے مگر اس سے پیدا ہونے والا وائرس ایک بالکل مختلف جینوم کا حامل ہوتا ہے۔ ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقلی میں ایسی بیش بہا میوٹیشنز جنم لے سکتی ہیں۔ اس بات کا علم ایک اور ابتدائی مریض سے حاصل شدہ وائرس پر تحقیق سے ہوا۔ یہ غلطی آر۔این۔اے کے 186ویں حرف میں اے سی کی بجائے اے یو کی شکل میں ہوئی اور اس 12 دن بعد دیکھی جانے والی میوٹیشن کو وبلیو۔ایچ 9 کا نام دیا گیا۔ 

یہ میوٹیشنز بالترتیب چلتی رہی جس سے سائنس دانوں کو مزید تحقیق کا موقع ملا۔ پتہ چلا کہ پہلی میوٹیشن کے بعد ہونے والی دوسری میوٹیشن ووہان کے مضافاتی علاقے میں دیکھی گئی جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ شاید یہ افراد کے آبا و اجداد کا تعلق بھی ووہان سے ہو۔ اس کے بعد ہونے والی میوٹیشن میں ایک کے بجائے 2 حروف میں تبدیلیاں آ گئیں جس کے بعد جینوم کو جی۔زیڈ۔ایم۔یو0030 کا نام دیا گیا۔ 

لہذا پتہ یہ چلا کہ یہ میوٹیشنز بالترتیب چلتی رہتی ہیں مگر یہ جینز میں تو ردوبدل کرتی ہیں پر اس سے بننے والی پروٹین میں تبدیلی نہیں آتی۔ ایسی میوٹیشنز کو سائلینٹ میوٹیشنز کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس نان سائلینٹ میوٹیشنز میں پیدا ہونے والی پروٹین بھی مختلف ہوتی ہے۔ چونکہ تبدیلی بہت ہی چھوٹی سطح پر ہے لہذا پروٹین کی ساخت پر اسکا اثر نہ ہونے کے برابر رہا۔ حتی کہ بعض میوٹیشنز بالکل ختم ہو گئیں جبکہ کچھ برقرار رہیں۔ یہ میوٹیشنز وائرس کے حصے کی مناسبت سے اسے کمزور یا طاقتور کرنے کی اہل ہوتی ہیں۔ 

تاہم حقیقت یہی ہے کہ اس وائرس میں کم و بیش 10 میوٹیشنز دیکھی گئیں۔ 1 فیصد کے دسویں حصے سے بھی کم میں 20 سے زائد میوٹیشنز نظر آئیں جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک آہستہ تبدیل ہونے والا وائرس ہے۔ ویکسین کے لحاظ سے یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ ذیادہ میوٹیشنز ویکسین بنانے کے عمل میں آہستگی کا سبب بنتی ہیں۔ 

کووڈ 19 کے بارے میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ 

اس وائرس کو شکست دینا آسان تو نہیں مگر چھوٹے چھوٹے عمل ہمیں اس صورتحال کی خطرناک نوعیت سے بچا سکتے ہیں۔ انہی عوامل میں سے ایک عمل یہ بھی ہے کہ ہم معمولی علامات کی صورت میں خود کو دوسروں سے علیحدہ کر لیں اور مزید خطرناک علامات جیسا کہ سانس میں مسئلے کی صورت میں اپنا ٹیسٹ کروائیں۔ 

Recommended Packages

Uzair Arshad

Uzair is a medical student of the penultimate year of MBBS in Allama Iqbal Medical College, Lahore. He is always interested in making things easy that are relatively difficult. Exploration is another catchy half and reading is a cup of tea.